Orhan

Add To collaction

اک ان چاہا رشتہ

اک ان چاہا رشتہ از سحر نور قسط نمبر6

وہ بھاگ رہی تھی۔۔ مسلسل بھاگ رہی تھی۔ ۔۔ اپنے پیچھے آتے وہ قدموں کی آواز با آسانی سن رہی تھی۔ مسلسل رو رہی تھی۔ قدموں کی آواز قریب آرہی تھی۔ اس نے اپنی پوری ہمت مجتمع کر کے وہ پوری قوت سے بھاگتی گئی۔ اسے ٹھوکر لگی وہ منہ کے بل نیچے گری۔ دیکھو۔۔ ممم میرے قریب مت آنا۔۔۔ مم مجھے ہاتھ مت لگانا۔۔ دور رہو میرے سے۔ اسے ایک بھیانک قہقہہ سنائی دیا۔ کچھ ہاتھ اسے اپنی جانب بڑھتے ہوئے نظر آئے۔ اسے کچھ سجھائی نہیں دیا۔ اسنے ایک بار رحم بھری نظروں سے اوپر دیکھا اور پھر سے ہمت کر کے بھاگ کھڑی ہوئی۔ سامنے اندھا کنواں دیکھا۔ ایک لمحے کو اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔ دوسرے ہی لمحے اس نے کنویں میں چھلانگ لگا دی۔ مگر یہ کیا۔۔۔۔ چھوڑو مجھے۔۔ خدا کا واسطہ ہے چھوڑ دو مجھے۔ ۔۔ چھلانگ لگاتے لمحے اسکی کلائی ایک کے ہاتھ میں آگئی تھی۔ وحید صاحب بلکل زری کے ساتھ سؤے ہوۓ تھے۔۔ جب سے وہ رات میں ڈرنے لگی تھی وہ اسکے ساتھ ہی اپنا بستر ڈال لیتے ۔ زری کی چیخوں نے ایک بار پھر سے انکی نیند توڑ دی۔ ندرت بیگم بھی اٹھ گئی۔۔ یا اللّه‎‎۔۔ یہ کیا ہورہا۔۔ وحید صاحب نے دیکھا زری بستر سے جلدی میں اتری اور بھاگنے لگی۔۔ اسی لمحے اسکا بازو پر انکا ہاتھ پڑ گیا۔۔ اور انہوں نے اسے پکڑ کر اپنی آغوش میں چھپا لیا۔ زری ابھی بھی چلا رہی تھی۔۔ چھوڑو مجھے۔۔ چھوڑ دو مجھے۔۔ ساتھ میں رو رہی تھی۔ زری۔۔۔ زری۔۔ وحید صاحب نے اسے زور سے جھنجھوڑا۔ زری کو ہوش آیا تو لمحے بھر کیلئے وہ چپ ہوگئی۔ اور پھر رونے لگ گئی۔ پاپا۔۔ پاپا۔۔ وہ مجھے پکڑ لیں گے۔۔ پاپا۔۔ کون پکڑ لے گا۔۔ کوئی نہیں ہے۔۔ میں ہوں پاس چلو شاباش سو جاو۔۔ دونوں میاں بیوی کو اب فکر کھائے جارہی تھی آخر اسے ہوکیا گیا ہے۔ زری وحید صاحب کے پاس ہی پھر سے سوگئ۔ 🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹🌹🌹 زرش کا ڈر اسکا سب سے بڑا دشمن تھا۔۔ وہ ہمیشہ سے ہی ایک ڈرپوک اور بزدل لڑکی رہی تھی۔۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوفزدہ ہوجانا عام سی بات تھی۔ اس سب کے پیچھے اس کے دماغ میں بچپن کی وہ خوفناک یادیں تھیں جنہوں نے اسے ایسا بنا ڈالا تھا۔ وہ لوگ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے۔۔ وہ گھر میں چھوٹی تھی۔ اسی لیے وہ ان سب واقعات کو اپنے ننھے ذہن سے نہ نکال پائی تھی۔ گھریلو لڑائیوں نے اسے خوفزدہ کردیا تھا۔ ہر وقت ساس بہو، نند دیورانی اور جٹھانی کی لڑائیاں دیکھ دیکھ کر وہ ڈرنے لگی۔ زویا اسکے ددھیال خاندان میں پہلی بیٹی تھی اسکی پھوپھی کے بعد اسی لیے اسکو کافی اہمیت دی گئی۔۔ اسی اہمیت نے اسے یہ باور کرا دیا کہ اس نے بس حکم دینا وہ حکم دینے کیلئے ہے۔ وہ بڑی ہے۔ وہ جو کرے صحیح ہے۔ اس سب میں زری کہیں بھی نہیں تھی۔ زویا میں ہمیشہ سے ہی اکڑ رہی۔۔ مگر زری اس سب کو برداشت نہیں کرسکی۔۔ وہ ہر ایک سے ڈرنے لگی۔۔ چھوٹی سی عمر میں ہی اسنے اس سب کا یہ حل نکالا کہ وہ گھر سے باہر رہنے لگی۔ دوپہر میں سپارہ پڑھنے کے بہانے نکل جاتی اور مغرب کے بعد گھر آتی۔۔ اس دوران وہ باہر اکیلی بیٹھی رہتی۔۔ مٹی سے کھیلتی رہتی۔ ایک دن جب بہت شدید لڑائی ہوئی گھر میں تو اس نے دیکھا کہ پاپا نے امی پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ اس سب سے وہ مزید خوفزدہ ہوگئی۔ پاپا نے امی کو مارا ہے۔۔ وہ روتے ہوے خود سے کہہ رہی تھی۔۔ پاپا مجھے بھی بھی ماریں گے۔ پاپا سب کو ماریں گے۔۔ اسے اس سب سے بس ایک بات سمجھ آئی کہ اگر وہ کچھ بھی کہے گی تو اسے کوئی مارے گا۔ اسلئے اس نے کچھ کہنا مانگنا ضد کرنا سب چھوڑ دیا۔ دن بہ دن یہ اس کی شخصیت کا خاصہ بن گیا کہ وہ ڈرپوک ہے۔ اسے کسی سے کچھ نہیں کہنا۔ اس سب کے بعد ایک انسان نے اسے یہ احساس دلایا کہ وہ بھی اہمیت رکھتی ہے تو وہ اس پر کیوں نہ اعتبار کرتی۔۔ اسے کہا گیا کہ وہ بھی اچھی لڑکی ہے تو کیوں نہ اس کا یقین کرتی۔۔ 🌹🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🍁🌹🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹 اگلے دن یونیورسٹی میں وہ سب سے الگ تھلگ ہوکر بیٹھی رہی۔۔ زرش کے دماغ میں سوچوں کے جھکڑ چل رہے تھے۔۔ اس کے دماغ میں معلوم نہیں کیا آیا اس نے ایک بار پھر سے اسجد خان سے بات کرنے کا سوچا۔ میں سمجھاوں گی انہیں۔۔وہ سمجھ جائیں گے۔۔ مجھے معلوم ہے وہ بھٹک گئے ہیں۔ آخر سب نے انہیں بھی تو اکیلا چھوڑ دیا تھا نا۔ وہ غلط راستہ پہ چل پڑے ہیں۔ میں روکوں گی انہیں۔ وہ سمجھتے ہیں میری بات کو۔ لاگ ان کرنے بعد جب اس نے میسنجر آن کیا تو خود کو انبلاک پایا۔ اور اسجد کے میسجز دیکھنے کے بعد اسے آس لگی۔ اسجد:۔ مجھے معاف کردو زری۔۔۔ تم ایک بہت اچھی لڑکی ہو۔ میں بہت برا انسان ہوں۔۔ آپ خود کو برا مت کہیں اللّه‎‎ پاک سے معافی مانگیں ۔ اسجد:۔ مجھے میسج مت کرنا۔۔ میں بہت برا ہوں۔ ایسا مت کہیں۔برا نہیں ہوتا کوئی بھی بس حالات اسے ایسے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔۔۔ بے شک مجھے بہت برا لگا۔۔ معلوم ہے مجھے کیسا لگا۔۔۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ گلی کی بوڑھی عورت حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر کوڑا پھینکتی نا۔۔ جب ان پر وہ کوڑا گرتا ہوگا انہیں کیسا لگا ہوگا۔۔ مجھے بھی ایسا لگا اپنے ساری گندگی اٹھا کر مجھ پر پھینک دی ہے۔۔ سارا کوڑا کرکٹ اکھٹا کرکے میرے پر پھینک دیا۔۔ اسجد:۔ زری بس کرو۔۔ کہہ دیا نہ میں ہوں برا بہت برا ہوں۔ دور رہو میرے سے۔ تم دیکھنا جس انسان کو بھی ملو گی نا اس کیلئے تم اللّه‎ کیطرف سے ایک بہترین تحفہ ہوگی۔ اچھا اگر آپ برےہیں تو کیا آپ شیطان ہیں جو مجھے بھٹکا رہا۔ پتہ اللّه‎‎ پاک نے مجھے روکا ہر طرح سے روکا پر میں نہیں رکی۔ زری رو پڑی۔ اسجد:۔ ہاں! ہو سکتا میں وہی شیطان ہوں ۔ اب جاؤ یہاں سے میرا دماغ مزید خراب مت کرو۔۔ آپ تو انسان ہیں اپ کیسے شیطان ہوسکتے ہیں۔ اسجد:۔ اچھا چھوڑو کوئی اور بات کرو۔۔ کیا کہوں اب میں۔۔ اسجد نے ایک لفظ لکھ کر بھیجا اسے جسکامطلب زری کے فرشتوں کی معلوم نہیں تھا۔ یہ کیا ہے۔۔ ؟؟ اسجد:۔ کچھ نہیں ہہے۔۔ ہاہاہاہا۔۔ چھوڑو شریف لوگوں کے کام کی چیز نہیں ہے۔ زری نےاسجد سے کوئی بحث نہیں کی اور موبائل بند کردیا۔۔ کلاس سے نکل کر وہ اسما کی طرف گئی۔۔ اسما۔۔۔ بات سنو۔۔ ہاں بولو۔۔ اسما نے موبائل میں مصروف رہتے ہی اسے جواب دیا۔ زری نے وہ لفظ اسما کے سامنے دوہرایا۔ اسکا مطلب کیا ہوتا ہے۔
اسما تو زری کے منہ سے وہ لفظ سن کر ہکا بکا رہ گئی۔۔ اوےےےےےے۔۔۔ نیٹ پہ تو سرچ نہیں کیا؟ اسما نے جلدی سے پوچھا۔ نہیں۔۔ کیوں۔۔ کرنا بھی مت۔۔ تمہیں بتایا کس نے ہے یہ۔۔ وہ۔۔۔ ہہ مجھے۔۔ کسی نے نہیں کہیں لکھا دیکھا۔۔ کیا مطلب ہے۔ بتاو نا۔۔ زری کو اب تجسس ہوا۔ ارے۔۔ بہن۔۔۔ کوئی اچھا مطلب نہیں ہے۔۔ یہ فحش ویڈیوز کو کہتے ہیں انگلش میں۔۔ پلیز اب سرچ نہ کرنا۔ پتہ نہیں تم جیسی لڑکی کو یہ سب کون بتا رہا۔۔ حد ہے۔۔ اسما کو اب کافی غصہ آیا۔ زری کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔ یعنی وہ اب بھی باز نہیں آئے۔۔ 🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🍁🌹🌹🌹🍁 رات میں اب اس نے فیصلہ کیا کہ اب مزید نہیں ہوگا یہ سب۔۔ اسکے خواب سچ ہورہے تھے۔۔۔ وہ برے لوگ وہ کالے رنگ کے وحشی کتے وہ سب کوئی اور نہیں وہ سب اسکے اپنے گناہ تھے جو انجانے میں اسجد جیسے انسان پر اعتبار کر کے کر رہی تھی۔ وہ سچ میں کسی غلط کے ہاتھ لگ گئی تھی۔۔اور نکلنا مشکل ہورہا تھا۔۔ لیکن شاید وحید صاحب کی اچھی تربیت نے اسے اتنا تو باکردار بنایا تھا کہ وہ کسطرح سے اس سب سے دور ہو۔ آخر اس نے فیصلہ کرلیا۔ اس نے اسجد کو میسج کیا۔ یہ سب کیا بکواس ہے۔۔ اسجد:۔ تمیز سے بات کرو۔۔ اچھا آپ نے جیسے بہت تمیز کے دائرے میں رہ کر بات کی۔ اسجد:۔ دیکھو میں پہلے کہا ہے حد میں رہو اپنی۔ اسجد خان۔۔ خدا پاک کی قسم مجھے اس کا ہرگز نہیں پتہ جو اپ مجھے کہتے رہتے ہیں۔ براہ مہربانی میری میری معلومات میں مزید اضافہ مت کریں۔۔ اسجد:۔ شادی کرو گی میرے سے؟؟ اسجد کا اسطرح سے اچانک سے بول دینا زری اندر سے ہلا گیا۔
یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔ ممم میں کیوں کرونگی شادی آپ سے۔ میں ایسا کبھی نہیں سوچا۔ پلیز اسجد خان میرے ساتھ اتنی زیادتی مت کریں کہ میں انسانیت سے خاص طور پر مردوں سے نفرت کرنے لگ جاؤں۔ اسجد:۔ جب پسند کرتی ہے تو شادی کیوں نہیں کر سکتی ۔ میں نے ایسا کب کہا۔۔ میں بس اتنا کہا آپ اچھے انسان ہیں اس سب میں پسند کہاں سے آگیا۔
اسجد:۔ اچھا۔ تو اب میسج نہ کرنا مجھے کبھی بھی۔۔ دفع ہو جاؤ۔ خامخاہ دماغ کی دہی بنا دی۔۔ ٹھیک ہے میں جارہی ہوں اب نہیں آۓ گا میسج آپکو۔ اسجد:۔ ایسے کیوں جارہی ہو۔۔ دیکھو مت جاؤ۔ آپ نہیں جانتے میں کیا کرسکتی ہوں ۔ اسجد:۔ ہاہاہاہا۔۔ تم کیا کروگی۔۔۔ میں تمہیں کچھ کرنے کے قابل چھوڑو گا تو کروگی نا۔۔ ہاہاہاہاہ۔۔ زری اس لمحے بلکل شاک بیٹھی تھی۔۔ یہ سب کیا ہورہا۔۔ آخر اس نے پھر ہمت کی۔
کیا کریں گے آپ۔۔ کر ہی کیا سکتے ہیں آپ۔۔ آپ سے بڑھ کر گھٹیا انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔ نفرت ہے مجھے اپ سے۔۔ بہت ذیادہ۔۔ یہ آخری میسج اس نے کیا اور اسجد خان کو بلاک کردیا۔۔ ساری چیٹ ڈلیٹ کر دی۔

   0
0 Comments